کینیڈا میں مقیم، جمال آفرینؔ کی نوکِ قلم سے اِک دِل شگفتہ تحریر...
پڑھیں اور سَر دھَنیں!!
یہاں کینیڈا میں ماہ جولائی کے وسط میں آمد پر سب کچھ ٹھیک ھے اور یہاں کے نلکوں کا پانی پی کر بھُوک جلدی بڑھ جاتی ہے...!
سخت گرمی سے نکل کر آئے تو ٹھنڈ گلے پڑ گئی...
بارش بغیر اطلاع اور بن بلائے مہمان کی طرح کبھی بھی آ جاتی ھے…
یہاں کا درجۂ حرارت تیس پینتیس سے اوپر کبھی گیا ہی نہیں...
کراچی کی دسمبر کی سرد راتوں کے درجہ حرارت برابر یہاں پر عموماً دن بھر رہتا ہے جبکہ ان دنوں موسم گرما کا گُزر بَسر فی الحال یہاں چل رہا ھے...
ہر سو ہریالی اتنی کے جس مٹّی سے بنی نوع انسان بنائے گئے ہیں وہ یہاں کی سرزمین پر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ہے کمال است...!
<سکُون ملتا ھے جَلتی دوپہروں میں
بنی ھے مرہمِ دل دھوپ کی شعائیں بھی>
بوندا باندی ہو یا مُوسلا دھار بارِش، پانی یہاں نکاسی کے بےمثال نظام کے تحت زمین نِگل جاتی ہے...
ندی، نالے اور کمبخت کوئی جوہڑ یا تالاب تک تلاش و بسیار کرتے رہو تب بھی نہیں دیکھنا نصیب ہوتا کہ بندہ بول اُٹھے کہ…
"آسماں سے گرا کھجور میں اٹکا یا آن ٹپکا...!"
کوئی بندہ کسی کی ٹوہ میں لگائی بجھائی کرتا نظر نہیں آتا سب اپنے دھندوں میں غرقاب اپنی ہی دنیا میں مست ہیں جیسے...
<بیزار پھر رہے ہیں
سب اپنی حیات سے>
یہاں زندگی واقعی بہت خوبصورت ہے اگر سب اپنی اپنی گزاریں تو…
گاڑیاں سب کی سب کسی پالش کیئے جوتے کی مثل چم چم کرتی، لش پش فراٹے بھرتی جاتی نظر آتی ہیں... مَجال ھے جو کوئی بھی دھُواں دیتا یا گردآلودہ گاڑی دیکھنے کو ملے، حتیٰ کہ پہیوں کے جُوتے (ٹائر) بھی سیاہ رات کی کالی سیاہی جیسے نئے نکور نِکھرے، گول مٹول، گھومتے اور بھاگتے ہوئے مشاہدے میں آتے ہیں کہ کمبخت آئینہ بھی شرما جائے...!
درختوں کے جھُنڈ کے جھُنڈ ہر تھوڑی دوری پر زمین کے سینے پر اپنے قدآور تنوں پر ایسے اکڑے ہوئے کھڑے جیسے کوئی طویل القامت فوجی جتھا سلامی کے موقع پر مُنظّم طریقے پر جَمے کھڑے پائے جاتے ہیں...
<یہ کشتِ زَار، یہ سَبزہ، یہ وادی گُل پوش
سکونِ دَشت، یہ صَحرا کا منظر خاموش>
گاڑیوں کی آمدورفت کا نظام بیحد مَربُوط اور منظّم، کسی سُقُم سے پاک رہتا ہے مجال ھے جو کوئی خلاف ورزی کرنے کی جسارت کر بیٹھے...
سانپ کی مانند بل کھاتی کشادہ رو شاہراہوں کا جال زمین کا سینہ چیر کر دامنِ دشتِ کے وسط میں بچھا کر شہر تا شہر ایک دوسرے سے منسلک کر دیا گیا ہے. عموماً ان شاہراہوں کی سہولت کے پیشِ نظر یہاں کے باسی تفریحی بنیاد پر تیار کردہ بنے بنائے گھر نما اپنی گاڑیوں کے عقب میں باندھ کر تفریحی مقامات کے لئے طویل مسافت طے کرتے ہوئے سفر در سفر شاہراہوں کو ناپتے ماپتے سیر سپاٹے پہ نکل پڑتے ہیں.
سڑکوں کو پار کرنے کیلئے اشاروں کی بتّیوں کے مقام پر مخصوص زیبرا گزرگاہ (کراسنگ) کے علاوہ سڑک پار کرنا سنگِین جرم کے زَمرے میں شُمار ہوتا ہے، خواہ وہ مقرر کردہ گزرگاہ آدھے میل فاصلے پر ہی کیوں نہ ہو...!
اشارہ بتّی لگے کھمبے میں موجود دستک (بٹن) کو دبانے اور اشارے کی بتّیوں کے نیچے ہاتھ 🤚شکل کی بنی ہوئی بتّی روشن ہونے سے قبل کسی بھی صورت سڑک پار کرنا ممنوع ہے.
بقول ناچیز نااہل کی اہلیہ کے…
"جب لعنت دکھاتی بتّی جل پڑے تو شرمسار ہو کر قدمِ رنجہ فرما لیں…!"
سیر سپاٹے کرتے، سڑک ناپتے سمے اس بات کا دھیان رکھنا اتنا ہی اہم ہے جتنا ہتھکڑیاں پہننے سے بچنا، کچھ اسطرح کہ راہ چلتے ہوئے تھُوکنا یہاں کے کافر معاشرے میں بیحد معیُوب سمجھا جاتا ھے حتیٰ کہ گلا کھنکارنا ہی اطراف کے اپنی دھن میں مست راہگیرں کے ہمراہ چلتے کتّوں کے کان کھڑے ہونے س قبل انکے اپنے کان پہ پہلے ہی بھِنک پڑ جاتی ہے اور ناگوار چہرے سے دیکھا کیئے جاتے ہیں کہ یہ بندہ تھوکے تو مخاطب کی سرزنش کیلئے فرنگی الفاظ کا شائستہ و ناشائستہ انتخاب اس بولنے والے کی فطرت کے مطابق تیار کیا جائے…
لامحالہ، حلق کا کھنکانے پر انجام کار یقیناً تھوک نگلنے پر ہی بیچارے اگلے کو اکتفا کرنا پڑ جاتا ھے...
پاکستان جیسی دل پھینک آزادی تو یہاں ھے نہیں کہ بندہ فراخدلی سے مغلّظات اگلنے کے علاوہ پان کی پِیک، نُسوار یا دائمی بلغم کی باقیات تھَوک کر بَرمَلا اپنی کشادہ قلبی کا مظاہرہ کر دیا کرتا ہے...!
شہر مَونک ٹَن چونکہ ایک چھوٹا سا شہری علاقہ ہے اور چہار اطراف نشیب و فراز سے مزئین ٹِیلوں پر مشتمل تناور درختوں بھرے جنگلات کی بُہتات اور ہر سو نظر دوڑائیں تو اوپر تلے لہلہاتے سرسبز مَرغَزَاروں پر مُحِیط مُشاہدے میں آئیں گے جو کہ کینیڈا کی روایتی دلکشی کا بھرپور اِظہار کرتے نظر آتے ہیں تو وہیں تر و تازہ آب و ہوا کے جھونکے انسانی زندگی کو بادِصبا کی سحر انگیز، فرحت افزاء، صحت بخش بادکش (پھنکا) بن کر فضائے بسیط پر انکھیلیاں و اٹھکھیلیاں کرتی جاتی ہیں کہ کیا کہنے صاحب!!
<چلا جو میں ترے رستے پہ، میرے صحرا کو
ُامنڈتے اَبر دیئے، مَرغَزار تُو نے کیا
برنگِ خُطُوط رَمل کوہِسار
کہیں چَشمے جاری، کہیں مَرغَزار>
نظرے خوش گزرے، گویا یہ سب مل کر قلب و ذہن کو اک گوناگوں ڈھارس دیئے بے پناہ تسکین کا موجب بن جاتی ہیں. ایسے روح پرور مناظر جو سر زمینِ گُل، 🍁کینیڈا🍁 کے شایان شان، سرسبز و شاداب گُلِ خار اور گُل بیگانہ کے ہمراہ تُلسی، گیندے، گُلاب، موتیا، چَنبیلی، گلِ جعفری، گُلِ چاندنی، سَیَوتی، سُورج مُکھی اور گُلِ بنفشہ کے یہ خوبصورت و جاذب نظر گل ہائے بُوٹے اک حسِین امتزاج گلِ گلزار کیئے اس جلترنگ ماحول کو مثلِ جنّت مُعطّر و مُغلوب کر دیتے ہیں کہ انسان اس کی سحر انگریزی میں مبہُوت ہو کر تخیّلات کی نئی جہتوں میں کہیں گُم سُم ہو جاتا ہے...!
<یہ چال سُبک بادِ سَحر کو نہیں معلوم
ہر رَگ میں نے در آیا گُلِ تر کو نہیں>
الغرض کہاں تک لکھوں، کہاں تک سنو گے میری کہانی؟
بس اتنا ہی کہہ دوں کہ وہ راستے پہلے ہی بنا دیتا ھے لیکن عطا صرف بہترین وقت پر کرتا ھے!!
<راستے فرصت کے نہیں
توّجہ کے مُحتاج ہوتے ہیں>
آپکے ذوق سے ہم آہنگ لفظوں کے ہیر پھیر کا سب رنگ، جمالستان سے یہ جلترنگ برسوں سے جاری آدمی نامہ ابھی،
جاری ہے...
احقر الانام، جمال آفرین🍁
میرے لفظوں کو اتنی شِدّت سے نہ پڑھا کرو
کُچھ یاد رہ گیا تو ہمیں بھُول نہیں پاؤ گے
Comments generated by AI:
میں نے آپ کا کینیڈا کے بارے میں لکھا ہوا مواد پڑھا۔ یہ ایک بہت ہی دلفریب اور منفرد انداز میں لکھی گئی تحریر ہے۔ میں اس کا ایک پیشہ ورانہ تجزیہ اور تبصرہ پیش کرتا ہوں تاکہ اس کی ادبی اور لسانی خوبیوں کو اجاگر کیا جا سکے۔
کینیڈا: ایک شاعرانہ سفر نامہ
یہ تحریر کینیڈا میں زندگی کے تجربے کو بیان کرتی ہے۔ اس میں مشاہدات اور ذاتی احساسات کا حسین امتزاج ہے جو اسے محض ایک رپورٹ کی بجائے ایک ادبی شاہکار بناتا ہے۔ تحریر کا آغاز ہلکے پھلکے انداز میں ہوتا ہے، جس میں کراچی کی گرمی سے کینیڈا کی ٹھنڈک تک کے دلچسپ تضادات کو بیان کیا گیا ہے۔
تحریر کی پیشہ ورانہ جھلکیاں:
انفرادی اسلوب: مصنف نے ایک منفرد اور ذاتی اسلوب اپنایا ہے۔ اس کی تحریر میں شاعری، فقروں اور محاورات کا استعمال اسے زندہ دلی اور گہرائی بخشتا ہے۔ "نلکوں کا پانی پی کر بھوک جلدی بڑھ جاتی ہے" جیسے فقرے قاری کے چہرے پر مسکراہٹ لے آتے ہیں۔
تشبیہات اور استعارے: اس تحریر میں کئی جگہ خوبصورت تشبیہات اور استعارے استعمال کیے گئے ہیں۔ جیسے گاڑیوں کو "پالش کیے جوتے کی مثل چم چم کرتی" قرار دینا، یا سڑکوں کو "سانپ کی مانند بل کھاتی" کہنا، تحریر کو مزید دلکش بناتا ہے۔
تصویری زبان: مصنف نے الفاظ کا انتخاب اس مہارت سے کیا ہے کہ قاری کے ذہن میں کینیڈا کے مناظر کی واضح تصویر بنتی ہے۔ "درختوں کے جھُنڈ کے جھُنڈ ... جیسے کوئی طویل القامت فوجی جتھا سلامی کے موقع پر منّظم طریقے پر جمے کھڑے" اس کی بہترین مثال ہے۔
تضادات کا اظہار: مصنف نے پاکستان اور کینیڈا کے درمیان پائے جانے والے فرق کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ خصوصاً صفائی اور نظام کی پابندی کے حوالے سے، جیسے "پاکستانی جیسی دل پھینک آزادی تو یہاں ہے نہیں" کا فقرہ ایک گہرا اور مزاحیہ تبصرہ ہے۔
شعر و ادب کا استعمال: تحریر میں جا بجا اشعار کا استعمال اس کی ادبی قدر و قیمت بڑھاتا ہے۔ یہ اشعار تحریر کے موضوع کو مزید تقویت دیتے ہیں اور اس میں ایک شاعرانہ کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ ہر شعر ایک نئے پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔
تبصرہ:
یہ تحریر صرف ایک ملک کا بیان نہیں بلکہ ایک ذاتی سفرنامہ ہے جو تجربات، مشاہدات، اور جذبات کا ایک بہترین مجموعہ ہے۔ مصنف کی زبان پر گرفت قابلِ تعریف ہے، اور وہ اپنے الفاظ کے ذریعے قاری کو اپنے ساتھ اس سفر میں شامل کر لیتا ہے۔ یہ تحریر نہ صرف کینیڈا کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے بلکہ قارئین کے دلوں پر بھی گہرا اثر چھوڑتی ہے۔
آپ نے ایک بہت ہی خوبصورت اور متاثر کن تحریر لکھی ہے۔ اس کی ادبی اور فنی خوبیاں اسے واقعی پیشہ ورانہ اور دلکش بناتی ہیں۔